نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب


حدیث نمبر: 498
حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ وَجَعٍ أَوْ مَرَضٍ، إِلا كَانَ كَفَّارَةَ ذُنُوبِهِ، حَتَّى الشَّوْكَةُ يُشَاكُهَا، أَوِ النَّكْبَةُ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت درد یا مرض کی صورت میں پہنچتی ہے، وہ ضرور اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، یہاں تک کہ کوئی کانٹا یا معمولی سی چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی گناه معاف ہو جاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضي، باب ماجاء فى كفارة المرض: 5640 و مسلم: 2572»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 498 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 498  
فوائد ومسائل:
مسلمان کو پہنچنے والی ہر مصیبت، آزمائش اور معمولی سے معمولی تکلیف بھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ اس پر ضرور اجر ملتا ہے بشرطیکہ وہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھے۔ یہ اجر کبھی گناہ کی معافي کی صورت میں ہوتا ہے، کبھی اجر و ثواب میں اضافے کے ساتھ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بندے کو اس کے دین کے مطابق آزمائشوں میں ڈالا جاتا ہے۔ جس کا ایمان جس قدر پختہ ہو اس کی آزمائش بھی اسی قدر سخت ہوتی ہے۔ (سنن ابن ماجة، ح:۴۰۱۳)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 498   


حدیث نمبر: 499
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا، قَالَ: اشْتَكَيْتُ بِمَكَّةَ شَكْوَى شَدِيدَةً، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَتْرُكُ مَالا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُكْ إِلا ابْنَةً وَاحِدَةً، أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي، وَأَتْرُكُ الثُّلُثَ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: أُوصِي النِّصْفَ، وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ؟ قَالَ: ”لَا“، قَالَ: فَأَوْصِي بِالثُّلُثِ، وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: ”الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ“، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهِي وَبَطْنِي، ثُمَّ قَالَ: ”اللّٰهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ“، فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي فِيمَا يَخَالُ إِلَيَّ حَتَّى السَّاعَةِ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں شدید بیمار ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کافی زیادہ مال چھوڑ کر جا رہا ہوں، جبکہ میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال کی اللہ کی راہ میں وصیت کر دوں، اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا: آدھے مال کی وصیت کر دوں اور آدھا بیٹی کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں اور دو حصے اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیسرے حصے کی وصیت کر لو، ویسے تیسرا بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری پیشانی پر رکھا۔ چہرے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اے الله! سعد کو شفا عطا فرما اور اس کی ہجرت پوری فرما۔ میں اپنے جگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کی ٹھنڈک مسلسل محسوس کرتا رہا ہوں، حتی کہ ابھی تک کر رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المرضى، باب وضع اليد على المريض: 5659 و مسلم: 1628 و أبوداؤد: 3104 و النسائي: 3626 و الترمذي: 975، مختصرًا»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 499 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 499  
فوائد ومسائل:
(۱)تیمار داری کسی بھی مناسب وقت میں کی جاسکتی ہے اور اگر گھر والے پریشان نہ ہوں یا ہنگامی صورت حال ہو تو رات کے وقت بھی تیمار داری کی جاسکتی ہے۔
(۲) انسان کو چاہیے کہ دنیا سے جانے سے پہلے کچھ مال اپنی آخرت کے لیے بھی بھیجے، تاہم زیادہ سے زیادہ تیسرے حصے کی وصیت کی جاسکتی ہے۔
(۳) اس سے معلوم ہوا کہ دم کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دم کیا ہے اور آپ کو بھی جبرائیل امین نے دم کیا۔ اسی طرح ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری میں آپ کو دم کرتی تھیں لیکن اپنے ہاتھ کی بجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھیرتی تھیں۔
(۴) سعد رضی اللہ عنہ حدیث میں مذکور موقع پر صرف ایک بیٹی کے باپ تھے نبی علیہ السلام کی دعا سے وہ اس بیماری سے شفا یاب ہو گئے عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں کوفہ کے گورنر بھی رہے اور بعد میں ان کی نرینہ اولاد بھی ہوئی۔ (بخاري:۲۷۴۲، مزید حدیث نمبر ۵۲۰ دیکھیں)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 499   

Previous    1    2