نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار

66. بَابُ لا يُؤْذِي جَارَهُ
66. (کوئی شخص) اپنے ہمسائے کو اذیت نہ پہنچائے

حدیث نمبر: 119
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مَوْلَى جَعْدَةَ بْنِ هُبَيْرَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ‏:‏ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ فُلاَنَةً تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ، وَتَفْعَلُ، وَتَصَّدَّقُ، وَتُؤْذِي جِيرَانَهَا بِلِسَانِهَا‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا خَيْرَ فِيهَا، هِيَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ“، قَالُوا‏:‏ وَفُلاَنَةٌ تُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، وَتَصَّدَّقُ بِأَثْوَارٍ، وَلاَ تُؤْذِي أَحَدًا‏؟‏ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور نیکی کے دیگر کام کرتی ہے اور صدقہ و خیرات بھی کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے ہمسایوں کو تکلیف پہنچاتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں، وہ دوزخی ہے۔ انہوں (صحابہ) نے کہا: اور فلاں عورت (صرف) فرض نماز ادا کرتی ہے اور پنیر کے چند ٹکڑے صدقہ کر دیتی ہے لیکن کسی کو ایذا نہیں پہنچاتی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتی عورتوں میں سے ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 190 - أخرجه أحمد: 9675 و ابن وهب فى الجامع: 315 و المروزي فى البر و الصلة: 242 و اسحق بن راهويه فى سنده: 293 و الحاكم: 166/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9545»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 119 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 119  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث سے حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ ان کا اہتمام کس قدر اہم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھائی کا معیار یہ بتایا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کیے جائیں۔ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حقوق کا پابند ہے لیکن بندوں کو ایذا دیتا ہے، بالخصوص ہمسائے اس سے تنگ ہیں تو ایسے شخص کے نماز، روزوں اور صدقات سے دھوکا مت کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کوئی دین داری نہیں کہ ایک طرف ایسا کام جسے چھوڑنا مباح ہے اس کا التزام کیا جائے اور جسے چھوڑنا ضروری اور فرض ہو اس کا ارتکاب کیا جائے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ حرام کما کر صدقہ و خیرات کیا جائے۔ ایسا شخص بے شک بظاہر دین دار ہے لیکن خیر سے خالی ہے۔
(۲) ہمسایوں کو ایذا دینا اور انہیں تنگ کرنا کبیرہ گناہ ہے جو دوزخ میں جانے کا باعث ہے لیکن افسوس کہ اس میں لوگوں کی اکثریت ملوث ہے ایک دوسری حدیث میں ایسے نمازیوں کو، جو لوگوں کو ایذا دیتے ہیں اور حقوق العباد کو پامال کرتے ہیں، اس امت کا مفلس (کنگال)قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((أتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ؟ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهٗ وَلَا مَتَاعَ فَقَالَ:إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أمَّتِي مَنْ یَأتِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِصَلَاةٍ وَ صِیَامٍ وَزَکَاۃٍ وَیَأتِی قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذفَ هَذَا وَأکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ ہَذَا وَضَرَبَ ہَذَا، فیُعْطٰی هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَاِن فَنِیَتْ حَسَنَاتَهُ قَبْلَ أنْ یُقضٰی مَا عَلَیْهِ أخِذَ مِنْ خَطَایَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔ (صحیح مسلم، البر والصلة، باب تحریم الظلم، حدیث:۲۵۸۱)
تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:ہم تو مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور مال و متاع نہ ہو۔ آپ نے فرمایا:بلاشبہ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکاۃ لے کر آئے گا لیکن کسی کو گالی گلوچ کی ہوگی، کسی پر بہتان لگایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا۔ پھر اس کی نیکیوں میں سے کچھ اس کو دے دی جائیں گی کچھ اس (دوسرے مظلوم)کو چنانچہ اگر اس کی نیکیاں حساب پورا ہونے سے پہلے ختم ہوگئیں تو ان (مظلوموں)کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
ایک دوسری حدیث میں تو حقیقی مسلمان کہا ہی اسے گیا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (بخاري:۱۰)
(۳) اللہ تعالیٰ کے احکامات کی دو اقسام ہیں:(۱)مأمورات (جن کے کرنے کا حکم ہے)(۲)منہیات (جن سے باز رہنے کا حکم ہے)مأمورات پر عمل اسی وقت سود مند ہوگا جب منہیات سے رکا جائے ورنہ طاعت کے کام بھی منہیات کے ارتکاب سے ضائع ہو جائیں گے جیسا کے حدیث سے ظاہر ہے۔
(۴) دوسری عورت جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی قرار دیا وہ اگرچہ اول الذکر عورت سے مأمورات پر عمل کرنے میں کم درجہ تھی کہ صرف فرائض کا اہتمام کرتی تھی لیکن منہیات کا ارتکاب نہیں کرتی تھی۔ معلوم ہوا حصول جنت کے لیے ضروری ہے کہ منہیات سے اجتناب کیا جائے۔ اللہ کے بندوں بالخصوص پڑوسیوں کو ایذا نہ دی جائے ورنہ نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔ ایک حدیث کی رو سے کسی کو ایذا دینے سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 119   


حدیث نمبر: 120
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ غُرَابٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ‏:‏ إِنَّ زَوْجَ إِحْدَانَا يُرِيدُهَا فَتَمْنَعُهُ نَفْسَهَا، إِمَّا أَنْ تَكُونَ غَضَبَى أَوْ لَمْ تَكُنْ نَشِيطَةً، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ حَرَجٍ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ نَعَمْ، إِنَّ مِنْ حَقِّهِ عَلَيْكِ أَنْ لَوْ أَرَادَكِ وَأَنْتِ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعِيهِ، قَالَتْ‏:‏ قُلْتُ لَهَا‏:‏ إِحْدَانَا تَحِيضُ، وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلاَّ فِرَاشٌ وَاحِدٌ أَوْ لِحَافٌ وَاحِدٌ، فَكَيْفَ تَصْنَعُ‏؟‏ قَالَتْ‏:‏ لِتَشُدَّ عَلَيْهَا إِزَارَهَا ثُمَّ تَنَامُ مَعَهُ، فَلَهُ مَا فَوْقَ ذَلِكَ، مَعَ أَنِّي سَوْفَ أُخْبِرُكِ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ إِنَّهُ كَانَ لَيْلَتِي مِنْهُ، فَطَحَنْتُ شَيْئًا مِنْ شَعِيرٍ، فَجَعَلْتُ لَهُ قُرْصًا، فَدَخَلَ فَرَدَّ الْبَابَ، وَدَخَلَ إِلَى الْمَسْجِدِ، وَكَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ أَغْلَقَ الْبَابَ، وَأَوْكَأَ الْقِرْبَةَ، وَأَكْفَأَ الْقَدَحَ، وَأطْفَأَ الْمِصْبَاحَ، فَانْتَظَرْتُهُ أَنْ يَنْصَرِفَ فَأُطْعِمُهُ الْقُرْصَ، فَلَمْ يَنْصَرِفْ، حَتَّى غَلَبَنِي النَّوْمُ، وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ، فَأَتَانِي فَأَقَامَنِي ثُمَّ قَالَ‏:‏ ”أَدْفِئِينِي أَدْفِئِينِي“، فَقُلْتُ لَهُ‏:‏ إِنِّي حَائِضٌ، فَقَالَ‏:‏ ”وَإِنْ، اكْشِفِي عَنْ فَخِذَيْكِ“، فَكَشَفْتُ لَهُ عَنْ فَخِذَيَّ، فَوَضَعَ خَدَّهُ وَرَأْسَهُ عَلَى فَخِذَيَّ حَتَّى دَفِئَ‏.‏ فَأَقْبَلَتْ شَاةٌ لِجَارِنَا دَاجِنَةٌ فَدَخَلَتْ، ثُمَّ عَمَدَتْ إِلَى الْقُرْصِ فَأَخَذَتْهُ، ثُمَّ أَدْبَرَتْ بِهِ‏.‏ قَالَتْ‏:‏ وَقَلِقْتُ عَنْهُ، وَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَادَرْتُهَا إِلَى الْبَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”خُذِي مَا أَدْرَكْتِ مِنْ قُرْصِكِ، وَلاَ تُؤْذِي جَارَكِ فِي شَاتِهِ.“
حضرت عمارہ بن غراب سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک پھوپھی نے بتایا کہ اس نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ہم میں سے کسی عورت کا خاوند اس کا ارادہ کرتا ہے، یعنی ہم بستری کے لیے بلاتا ہے اور وہ اسے روک دیتی ہے، غصے کی وجہ سے یا اس کا دل نہیں چاہتا، تو کیا اس صورت میں ہم پر گناه ہو گا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! خاوند کا تجھ پر حق ہے کہ اگر وہ تجھے مباشرت کے لیے بلائے تو اسے مت روکو، خواہ تم کجاوے کی لکڑی پر ہی ہو۔ وہ (راویہ) کہتی ہیں: میں نے ان سے کہا: ہم میں سے اگر کوئی عورت حالت حیض میں ہو، اور اس کا اور اس کے خاوند کا ایک ہی بستر کا لحاف ہو تو اس صورت میں کیا کرے؟ انہوں نے فرمایا: وہ اپنا تہبند اچھی طرح باندھ لے اور خاوند کے ساتھ سو جائے، اس کے لیے تہبند کے اوپر سے استمتاع جائز ہے۔ میں تمہیں بتاتی ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا۔ ایک رات میری باری تھی۔ میں نے کچھ جَو پیس کر ٹکیہ بنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دروازہ بند کر کے مسجد چلے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کا ارادہ فرماتے تو دروازہ بند کر دیتے، مشکیزے کا تسمہ باندھ دیتے، پیالے کو الٹ دیتے اور چراغ بجھا دیتے۔ میں آپ کی واپسی کا انتظار کرتی رہی کہ آپ کو وہ ٹکیہ کھلاؤں لیکن آپ (جلد) واپس تشریف نہ لائے اور مجھے نیند آ گئی۔ جب آپ کو سردی محسوس ہوئی تو آپ میرے پاس آئے اور مجھے اٹھایا پھر فرمایا: مجھے گرماؤ، مجھے گرماؤ۔ میں نے عرض کیا: مجھے حیض آ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اپنی ران کھول دو۔ میں نے آپ کے لیے اپنی ران کھول دی۔ آپ نے اپنا رخسار اور سر میری ران پر رکھ دیا یہاں تک کہ آپ گرم ہو گئے۔ اتنے میں ہمارے ہمسائے کی بکری کا بچہ اندر گھس آیا اور ٹکیہ کی طرف بڑھ کر اسے پکڑ لیا اور پھر چلا گیا۔ وہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں: مجھے بڑی تشویش ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے تو میں جلدی سے دروازے کی طرف گئی (تاکہ وہ ٹکیہ بکری کے بچہ سے پکڑ سکوں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ٹکیہ جتنی بچی ہے وہ پکڑ لو اور ہمسائی کو بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچانا۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن أبى عمر كما فى المطالب العاليه: 488/11 و أبوداؤد: 270 و البيهقي فى الكبرىٰ: 313/1، مختصرًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

الادب المفرد کی حدیث نمبر 120 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 120  
فوائد ومسائل:
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس لیے اس میں مذکور باتوں کو بنیاد بناکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کو مطعون کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔ اس کی سند میں عبدالرحمن بن زیاد افریقی ضعیف ہے۔ عمارہ بن غراب مجمول ہے اور اس کی پھوپھی بھی مجمول ہے۔ (فضل اللہ الصمد، ص:۱۸۸، ج:۱)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 120   

1    2    Next