نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار

65. بَابُ الْجَارِ السُّوءِ
65. برے پڑوسی کا بیان

حدیث نمبر: 117
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ كَانَ مِنْ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمُقَامِ، فَإِنَّ جَارَ الدُّنْيَا يَتَحَوَّلُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ دعا بھی ہوتی تھی: اے اللہ! میں مستقل جائے قیام میں برے ہمسائے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، کیونکہ دنیا (سفر) کا ہمسایہ تو بدلتا رہتا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن: الصحيحة: 1443 - أخرجه النسائي، كتاب الاستعاذة، باب الاستعاذة من جار السوء: 5504»

قال الشيخ الألباني: حسن

الادب المفرد کی حدیث نمبر 117 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 117  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث میں ہمسایوں کی دو اقسام ذکر کی گئی ہیں:محلے وغیرہ میں مستقل ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ، جنگل یا سفر کا ہمسایہ بھی اگر برا ہو تو انسان کا سفر کٹھن ہو جاتا ہے۔ اس سے انسان اس طرح چھٹکارا پاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ اپنا خیمہ لگالے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خود دوسری جگہ منتقل ہو جائے لیکن جہاں انسان مستقل رہائش پذیر ہے، لاکھوں روپے لگا کر مکان بنایا ہے نواب وہاں سے انسان کے لیے رہائش تبدیل کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات محال ہوتا ہے اس لیے مستقل قیام گاہ کے برے ہمسائے سے پناہ طلب کی گئی ہے۔
(۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوشش کرکے اچھا ہمسایہ تلاش کرنا چاہیے اور برے پڑوس سے بچنا چاہیے تاہم اگر انسان کسی آزمائش میں پھنس جائے تو اسے چاہیے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس طرح وہ اس کے افعال سے بری الذمہ ہو جائے گا اور قیامت کے روز بھی اس کی ہمسائیگی سے محفوظ رہے گا۔
(۳) اگر دارالمقام سے آخرت مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ قیامت کے روز برے لوگوں کا پڑوس نہ دینا کیونکہ وہ یقینا جہنم ہوگا۔
(۴) اللہ تعالیٰ سے دعا و التجا مومن کا ہتھیار ہے۔ انسان کتنا صاحب بصیرت ہو فیصلہ کرنے میں غلطی کرسکتا ہے۔ ممکن ہے وہ کسی کو اچھا سمجھ کر اس کا پڑوس اختیار کرلے لیکن اس کا اندازہ غلط ہو، کسی کو اچھا سمجھ کر اس کے ساتھ شراکت کرلے لیکن وہ دھوکے باز ہو اس لیے اللہ تعالیٰ سے التجا ضرور کرتے رہنا چاہیے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 117   


حدیث نمبر: 118
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ وَأَخَاهُ وَأَبَاهُ.“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ آدمی اپنے ہمسائے، اپنے بھائی اور باپ کو قتل کرے۔
تخریج الحدیث: «حسن: الصحيحة: 3185 - أخرجه أبويعلي: 7198 و ابن ماجه: 3959 و أحمد: 19636»

قال الشيخ الألباني: حسن

الادب المفرد کی حدیث نمبر 118 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 118  
فوائد ومسائل:
(۱)اس حدیث میں برے ہمسائے کو قیامت کی نشانی بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ لوگ حق ہمسائیگی کو فراموش کر دیں گے، یہاں تک ہمسایہ جو دوسرے ہمسائے کا محافظ ہوتا ہے خود اپنے ہمسائے کو قتل کرے گا۔
(۲) اس حدیث میں ہمسائے کی فضیلت اور اس کے عظیم حق کو اس طرح بیان فرمایا کہ پہلے ہمسائے کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد بھائی اور باپ کا تذکرہ کیا۔ گویا ہمسائے کی حرمت بھائی اور باپ کی طرح ہیں۔
(۳) ہمسائے، بھائی اور باپ کی ترتیب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے لوگ ہمسایوں کے بارے میں اس قدر بے باک ہو جائیں گے کہ انہیں قتل کریں گے، پھر یہ بے حسی اس قدر بڑھے گی کہ بھائی جیسے عزیز رشتے کا بھی لحاظ ختم ہو جائے گا اور بالآخر نوبت یہاں تک آجائے گی کہ لوگ دنیا یا کسی اور مفاد کے لیے ماں باپ کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔
(۴) قیامت سب سے برے لوگوں پر قائم ہوگی۔ نیکی ختم ہو جائے گی اور اللہ کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا تو قیامت کبریٰ برپا ہوگی، تاہم اس کے قریب ہونے کی دیگر نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کی معصیت اعلانیہ ہوگی، فساد، پھیل جائے گا، قتل و غارت عام ہو جائے گا اور اللہ کی حرمتوں کو بے دریغ پامال کیا جائے گا۔ دور حاضر میں یہ حالات واقعی پیدا ہوچکے ہیں۔ آئے روز اخبارات ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں کہ بھائی نے بھائی کو قتل کر دیا، باپ کو مار ڈالا، پڑوسیوں کے پورے خاندان کو قتل کر دیا۔ (أعاذنا اللّٰه منه)
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 118