نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
الادب المفرد
كِتَابُ الْجَارِ
كتاب الجار

55. بَابُ الْوَصَاةِ بِالْجَارِ
55. ہمسائے کے متعلق وصیت

حدیث نمبر: 101
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”مَا زَالَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جبریل مسلسل پڑوسی کے متعلق تاکیدی حکم دیتے رہے حتی کہ مجھے خیال گزرا کہ وہ اسے (ہمسائے کو) ضرور وارث بنا دیں گے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب الوصاة بالجار: 6014 و مسلم: 2625 و أبوداؤد: 5151 و الترمذي: 1942 و ابن ماجه: 3673 - الإرواء: 891»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 101 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 101  
فوائد ومسائل:
(۱)اہل عرب کے ہاں الجار قبل الدار گھر سے پہلے پڑوسی کا جملہ بہت معروف ہے۔ اچھا ہمسایہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ انسان کا واسطہ اکثر و بیشتر ہمسایوں سے پڑتا ہے۔ حتی کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ ہمسایوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دکھ درد میں رشتہ دار بعد میں پہنچتے ہیں جبکہ ہمسائے پہلے سے آن موجود ہوتے ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے پڑوسیوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
(۲) وارث بنا دیں گے یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوں گے کہ پڑوسی بھی اقرباء کی طرح وارث ہیں اور ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ ورنہ جبریل کو از خود اپنی طرف سے احکام دینے کا اختیار ہرگز نہیں تھا۔ یہ نسبت مجازی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو اللہ کے حکم سے ایسا کرتے اپنی طرف سے آپ کو از خود اختیار نہیں تھا جیسا کہ سورۂ تحریم کی شان نزول سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے شہد اپنے اوپر حرام کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یَاأیُّهَا النَّبِيُ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾
اے نبی! تم اس چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے؟
(۳) وصیت کرتے رہے کہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی کریں، اس کا خیال رکھیں، اس کی ضرورتیں پوری کریں اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں۔ وہ فاسق ہے تو اسے اچھے طریقے سے سمجھائیں، کافر ہے تو نرمی سے اسلام کی دعوت دیں، اس کے عیوب پر پردہ ڈالیں، اس کے گھر ہدیہ بھیجیں۔ اس کے لیے دعا کریں، اسے ایذا نہ دیں، وہ وحشت محسوس نہ کرے اور تمہارے شر سے محفوظ ہو۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمان ان تعلیمات سے یکسر روگردانی اختیار کرچکے ہیں، بالخصوص شہری زندگی میں اس کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پڑوسی کا خیال تو خیر دور کی بات ہے سالہا سال تک لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ وہ بھوکا ہے یا پیاسا! اس قدر خود پسندی اور بے پروائی یقینا ہمیں تباہی کے راستے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ صورت حال اس حد تک خطرناک ہے کہ اگر تعارف ہے بھی تو ہمسایہ شر سے محفوظ نہیں۔ اس کی بہو، بیٹی کا احترام نہیں، شریف انسان کے لیے اپنی شرافت برقرار رکھنا مشکل ہے، تاک جھانک اور چوراہوں میں کھڑے ہوکر اپنے محلے اور پڑوسیوں کی خواتین کو تنگ کرنا آج کے نوجوان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ گھر بناتے ہیں تو اخلاق کی ساری حدیں پھلانک جاتے ہیں، نہ پڑوسی کی غربت کا خیال، نہ اس کے پردے کا لحاظ بس ایک ہی ذہن ہے کہ میری کوٹھی اور مکان خوبصورت اور سب سے نمایاں ہو۔ کیونکہ پڑوسی کے ساتھ بہت سے مصالح اور مفاسد مشترک ہیں اس لیے شریعت نے اس کا بہت زیادہ خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 101   


حدیث نمبر: 102
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ.“
سیدنا ابوشریح (خویلد بن عمرو) خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے ہمسائے سے حسن سلوک کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے، نیز جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا چپ رہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الرقاق، باب حفظ اللسان: 6476، 6019 و مسلم: 48 و أبوداؤد: 3748 و الترمذي: 1967 و ابن ماجه: 3672 - الإرواء: 2525»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 102 کے فوائد و مسائل
مولانا عثمان منیب حفظ اللہ
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 102  
فوائد ومسائل:
(۱)حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ بھلائی کرے۔ بھلائی اور احسان مندی یہ ہے کہ اگر وہ اچھا سلوک نہیں کرتا تب بھی تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اس کے دکھ درد میں شریک ہو اور اگر مالی معاونت کا محتاج ہے تو اس کے ساتھ مالی تعاون کرو، یعنی اسے ہر خیر پہچانے کی کوشش کرو اور ہر شر اس سے دور رکھنے کی کوشش کرو۔ اسی طرح اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ مہمان کی تکریم کرے۔ تکریم یہ ہے کہ اسے خندہ پیشانی سے ملے، اسے وقت دے اور حسب استطاعت اس کے لیے اچھے کھانے کا بندوبست کرے۔ پہلے دن پر تکلف کھانا کھلائے، تین دن تک اچھی مہمان نوازی کرے، اس کے بعد اگر استطاعت ہے تو اس پر خرچ کرے وہ صدقہ ہوگا۔ ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے کہ وہ اس کی مہمان نوازی کرے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے تو قانونی چارہ جوئی کرکے بھی اس سے یہ حق وصول کیا جاسکتا ہے۔ یورپ وغیرہ میں مہمان نوازی کا رواج نہیں ہے بلکہ وہ اپنا اپنا کھاؤ کے اصول پر کاربند ہیں۔ یہ ان کی دنیا پرستی اور حسن اخلاق سے عاری ہونے کی دلیل ہے۔ وہ اسے بوجھ سمجھتے ہیں جبکہ اسلام میں یہ ایک سعادت ہے اور مہمان پر خرچ کی گئی رقم کا عنداللہ اجر ہے۔ اسلامی تعلیمات تو یہاں تک ہیں کہ خود بھوکے سو جاؤ لیکن مہمان کی مہمان نوازی ضرور کرو۔ اور یہ صرف مسلمان ہی کرسکتا ہے۔ مہمان کے لیے جاننے والے اور نہ جاننے والے کا فرق غیر مناسب ہے، تاہم مہمانوں کے حسب مراتب ان کی مہمان نوازی میں فرق ملحوظ رکھا جاسکتا ہے۔ مہمان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ میزبان کا خیال رکھے اور جو کچھ اسے پیش کیا جائے صبر وشکر سے کھالے۔ بے جا مطالبات کرکے میزبان کو مشکل میں نہ ڈالے۔ اور نہ اس کے ہاں اتنا قیام ہی کرے کہ وہ اکتا جائے۔ زبان جسم کا وہ حصہ ہے کہ جس پر کنٹرول کرنے والے کے لیے جنت کی ضمانت ہے۔ اور اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے تو جہنم میں اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔ اسی زبان سے نکلا ہوا ایک کلمہ جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے اور اسی زبان سے نکلی خیر کی بات دخول جنت کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو نہایت سوچ سمجھ کر بولنے کا حکم ہے۔ اگر کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہیں ہے تو خاموش رہنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔
(۲) حدیث میں اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان کا ذکر کیا اور ایمان کے دیگر لوازمات کو نظر انداز کر دیا۔ اس کی بابت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں ابتدا اور انتہا دونوں کا ذکر کر دیا، یعنی جو شخص اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے، اس نے اسے پیدا کیا ہے اور وہ اسے اس کے اعمال کا بدلہ دے گا اسے یہ کام کرنے چاہئیں۔ (فتح الباري:۱؍۴۴۶)
(۳) صمت، سکوت سے زیادہ بلیغ ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ قدرت اور طاقت کے باوجود خاموشی اختیار کرنا۔ یعنی اہل ایمان کو قوت گویائی کے باوجود کلمہ خیر کے علاوہ خاموش رہنا چاہیے اور لا یعنی گفتگو سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (شرح صحیح الادب المفرد، حسین بن عودة:۱؍۱۳۱)
(۴) پڑوسی سے حسن سلوک، مہمان کی تکریم اور کلمہ خیر کے علاوہ خاموشی کو ایمان باللہ اور روز آخرت پر ایمان کے ساتھ مربوط کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان امور کا خیال نہیں رکھتا تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے اس میں خرابی ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اعمال صالحہ سے ایمان بڑھتا اور معصیت و نافرمانی سے ایمان کم ہوتا ہے۔
(۵) کسی شخص پر اس کے ایمان اور اسلام کے بارے میں حکم ظاہری اعمال کے ذریعے لگایا جائے گا، باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ ظاہر اعمال اسلام کے مطابق ہیں تو اسے نیک تصور کیا جائے اور اگر ظاہر اعمال خلاف شرع ہیں تو اسے بد تصور کیا جائے گا۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 102