نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
مختصر صحيح بخاري
نکاح کے بیان میں

5. (میاں بیوی کا) مذہب میں یکساں ہونا۔

حدیث نمبر: 1833
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس اور جو کہ غزوہ بدر میں موجود تھا سالم کو بیٹا بنا کر اس سے اپنی بھتیجی ہندہ دختر ولید بن عتبہ ربیعہ کا نکاح کر دیا۔ سالم ایک انصاری عورت کا غلام تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بیٹا بنا لیا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا قاعدہ تھا اگر کوئی کسی کو بیٹا بناتا تو لوگ اسی کی طرف منسوب کر کے پکارتے تھے اور اس کے مرنے کے بعد وہ وارث بھی ہوتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری منہ بولے (لے پالک) بیٹوں کو ان کے اصلی باپ کا بیٹا کہہ کر پکارو .... (احزاب: 5) تو وہ سب اپنے حقیقی باپوں کے نام سے پکارے جانے لگے او اگر اس کا باپ معلوم نہ ہوتا تو مولیٰ اور دینی بھائی کہا جائے گا۔ بعدازاں سہلہ بنت سہیل بن عمرو قریشی عامری نے، جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا جانتے تھے اب اللہ نے جو حکم بھیجا ہے وہ آپ کو معلوم (مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟) پھر پوری حدیث بیان کی۔

حدیث نمبر: 1834
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ بنت زبیر (ابن عبدالمطلب) کے پاس جا کر اس سے پوچھا: کیا تیرا حج کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا (ہاں) مگر مجھے شدید درد لاحق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو حج کو چلی جا اور (اس میں) شرط کر لے کہ اے اللہ میرے احرام سے باہر ہونے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھ کو (میری کسی بیماری وغیرہ کے عذر سے) روک دے۔ اور ضباعہ رضی اللہ عنہ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
1    2    Next