نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں


حدیث نمبر: 1672
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں ٹھہرے تھے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا کہ کیا تم اپنا وعدہ پورا نہ کرو گے جو تم نے مجھ سے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تیرے لیے ثواب عظیم کی بشارت ہے۔ (خوش ہو جا) وہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہی فرماتے رہتے ہیں کہ خوش ہو جا (میں اس بشارت کو اوڑھوں یا بچھاؤں؟) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوموسیٰ اور بلال رضی اللہ عنہما کے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا: اس اعرابی نے بشارت کو قبول نہیں کیا تم دونوں قبول کر لو۔ وہ دونوں بولے کہ ہمیں قبول ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں پانی منگوا کر اس میں اپنے دونوں ہاتھوں اور منہ کو دھویا اور اسی میں کلی کی پھر فرمایا: اس میں سے تم دونوں پیو اور اپنے منہ اور سینوں پر چھڑک لو اور خوش ہو۔ ان دونوں نے لے لیا اور ایسا ہی کیا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے پیچھے سے پکار کر کہا کہ کچھ اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دو۔ انھوں نے کچھ پانی بچا کر انھیں بھی دے دیا۔

حدیث نمبر: 1673
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو جمع کر کے فرمایا: قریش کے لوگ ابھی دور جاہلیت اور قتل و قید کی مصیبتوں سے نکلے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں کچھ مال غنیمت دے کر ان کی مدد اور دل جوئی کر دوں۔ تو کیا تم خوش نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں کی طرف لے جاؤ؟ انھوں نے جواب دیا جی ہاں ہم راضی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اور لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑ کی گھاٹی پر چلیں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی اختیار کروں گا۔
Previous    1    2    3