نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں


حدیث نمبر: 1646
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں چڑھائی کی تو (راستے میں) لوگ ایک بلند جگہ پر چڑھے اور پکار پکار کر اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ کہنے لگے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے نفسوں پر نرمی کرو (اور چیخو نہیں) کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو، بلکہ تم سننے والے کو اور جو بہت نزدیک ہے اسے پکارتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ (اور اس وقت) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لاحول ولا قوّۃ الا بااﷲ پڑھتے ہوئے سنا پھر فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! (یہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے)۔ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! (کہ اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تجھے ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کی کہ ضرور یا رسول اللہ! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ کلمہ) لاحول ولا قوّۃ الّا بااﷲ (ہے)۔

حدیث نمبر: 1647
سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا (خیبر کے دن) مقابلہ ہوا اور دونوں طرف کے لوگ لڑے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فوج کی طرف لوٹے اور کافر اپنی فوج کی طرف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص تھا جو کسی اکیلے مشرک کو نہ چھوڑتا تھا بلکہ اس کے پیچھے جا کر اسے اپنی تلوار سے مار دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے تو آج وہ کام کیا ہے جو ہم میں سے کوئی نہ کر سکا (بہت سے کافروں کو مار ڈالا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ رہوں گا، پس وہ اس کے ساتھ رہا، جہاں وہ ٹھہرتا یہ بھی ٹھہر جاتا، جب وہ دوڑتا یہ بھی دوڑ کر اس کے ساتھ جاتا۔ (راوی نے) کہا کہ آخر وہ شخص سخت زخمی ہو گیا اور اس نے مرنے میں جلدی کی، (اور) اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور تلوار کی نوک اپنی دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھ کر اس پر اپنا سارا بوجھ ڈال دیا اور اپنے آپ کو قتل کر ڈالا تو وہ دوسرا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول اللہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ابھی ابھی آپ نے جس شخص کو دوزخی فرمایا تھا اور لوگوں پر آپ کا یہ کہنا شاق گزرا تھا، تو میں نے سوچا کہ چل کر اس کا حال دیکھوں اور لوگوں سے اس کی کیفیت بیان کروں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکلا، پھر وہ شخص بہت زخمی ہو گیا تو جلد مرنے کے لیے اس نے اپنی تلوار کا قبضہ زمین پر رکھا اور نوک اپنی چھاتی سے لگائی پھر اپنا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: کوئی شخص لوگوں کی نظر میں اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور کوئی شخص لوگوں کی نگاہ میں دوزخیوں کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
Previous    1    2    3    4    5    6    Next