نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
مختصر صحيح بخاري
آغار تخلیق کا بیان


حدیث نمبر: 1366
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا احد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری قوم (قریش) سے جو جو تکالیف اٹھائی ہیں وہ میرا ہی دل جانتا ہے اور سب سے زیادہ سخت دن مجھ پر مقام عقبہ (جو طائف کی طرف ہے) کا دن گزرا ہے جب میں نے اپنے آپ کو ابن عبد یا لیل بن عبد کلال (جو طائف کا رئیس تھا) کے سامنے پیش کیا اور اس نے میری خواہش پوری نہ کی پس میں نہایت رنج میں چلا، میں اپنے ہوش میں نہ آیا تھا کہ قرن الثعالب (مقام) میں پہنچا۔ اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ابر کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر لیا ہے پھر میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل (علیہ السلام) تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی گفتگو سن لی اور وہ جواب جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کافروں کی نسبت جو چاہیں حکم دیں۔ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، مجھے سلام کیا، اس کے بعد کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )! جو تم چاہو موجود ہے، اگر تم چاہو تو میں اخشبین (نامی دونوں پہاڑ) ان پر رکھ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! میں یہ نہیں چاہتا بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ ان کی پشت سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ عزوجل کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔

حدیث نمبر: 1367
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اس آیت پس دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم، پس اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی پہنچائی کا مطلب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (ان کی اصلی شکل میں) دیکھا تھا ان کے چھ سو پر تھے۔ (سورۃ النجم: 9 - 10)
Previous    2    3    4    5    6    7    8    Next