نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص

2222. قریش کی فضیلت

حدیث نمبر: 3375
-" قريش ولاة هذا الأمر، فبر الناس تبع لبرهم وفاجرهم تبع لفاجرهم".
سیدنا حمید بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ کے کسی گوشے میں (‏‏‏‏ ایک آبادی میں) تھے جب آئے تو آپ کے چہرے سے کپڑا اٹھایا، آپ کا بوسہ لیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کتنی پاکیزہ شخصیت ہیں، زندہ ہوں یا فوت شدہ۔ رب کعبہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں . . .۔ پھر سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما انصاریوں کے پاس گئے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے بات کی اور ان کے بارے میں نازل ہونے والی تمام آیات اور احادیث رسول ذکر کر دیں، نیز کہا: (‏‏‏‏انصاریو!) تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں چلیں تو میں انصار کی وادی میں ان کے ساتھ چلوں گا۔ سعد! تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم وہاں بیٹھے تھے: ‏‏‏‏قریش اس (‏‏‏‏خلافت کے) معاملے کے ذمہ دار و حقدار ہیں، نیکوکار لوگ نیک قریشیوں کے تابع فرمان ہوں گے اور برے لوگ برے قریشیوں کے ماتحت ہوں گے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سچ کہہ رہے ہو، ہم وزرا ہیں اور تم امرا ہو۔ یہ حدیث سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔

حدیث نمبر: 3376
-" إن قريشا أهل أمانة، لا يبغيهم العثرات أحد إلا كبه الله عز وجل لمنخريه".
زید بن عبدالرحمٰن بن سعید بن عمرو بن نفیل، جن کا بنو عدی قبیلہ سے تعلق ہے، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں کچھ قریشی جوانوں سمیت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس وقت وہ نابینا ہو چکے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ چھت کے ساتھ ایک رسی لٹک رہی تھی اور اس کے سامنے روٹیاں یا ان کے ٹکڑے پڑے تھے۔ جب کوئی مسکین کھانا مانگتا ہے تو سیدنا جابر ایک ٹکڑا اٹھاتے، رسی کو پکڑ کر اس کی رہنمائی میں مسکین تک پہنچتے، اسے وہ ٹکڑا تھماتے اور رسی کی رہنمائی میں ہی واپس آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ میں نے کہا: اللہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے، ہم یہ ٹکڑا (‏‏‏‏آسانی سے) مسکین کو پکڑا سکتے تھے (‏‏‏‏آپ نے ہمیں کہہ دینا تھا، خود کیوں تکلیف کی ہے)۔ انہوں نے کہا: دراصل میں اجر و ثواب کی نیت سے چل کر گیا ہوں، پھر کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان نہ کروں، جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے خود سنی؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، (‏‏‏‏ضرور بیان کیجئیے)۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏ بیشک قریشی امانت والے ہیں، جو آدمی ان کے عیوب کی ٹوہ میں پڑ جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے نتھنوں کے بل (‏‏‏‏اوندھے منہ) گرا دے گا۔
1    2    3    4    Next