نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص

2178. سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت

حدیث نمبر: 3238
- (أجل، فلا ترُدَّ عليهِ، ولكن قل: غفر اللهُ لك يا أبا بكرٍ! غفر الله لك يا أبا بكرٍ!).
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، آپ نے مجھے زمین دی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی زمین دی۔ ہم پر دنیا غالب آ گئی، کھجور کے ایک درخت کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری زمین کی حد میں ہے۔ میں نے کہا: یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان سخت کلامی ہوئی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوئے۔ (‏‏‏‏ بالآخر) انہوں نے مجھے کہا: اے ربیعہ! مجھے یہی کلمہ کہو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے ضرور کہنا پڑے گا، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کروں گا۔ میں نے کہا میں ایسا (‏‏‏‏جملہ) نہیں کہوں گا۔ ربیعہ کہتے ہیں: ابوبکر زمین چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بنواسلم قبیلہ کے چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اﷲ، ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، بھلا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز کے متعلق تیرے خلاف فریاد کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے تجھے ایسے ایسے بھی کہا ہے۔ میں نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، (‏‏‏‏غار ثور) میں دو میں سے دوسرے وہ تھے اور وہ مسلمانوں کے بزرگ ہیں۔ پس تم بچو (‏‏‏‏ کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ تم کو اپنے خلاف میری مدد کرتے ہوئے دیکھ کر غصہ ہو جائیں، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور آپ اس کے غصے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور ربیعہ ہلاک ہو جائے۔ انہوں نے کہا: تو (‏‏‏‏پھر ایسے میں) تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: تم چلے جاؤ۔ (‏‏‏‏اب ہوا یوں کہ) ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور میں بھی اکیلا ان کے پیچھے چل پڑا۔ پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جیسی بات تھی ویسے ہی بیان کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر میری طرف اٹھایا اور فرمایا: اے ربیعہ تیرے اور صدیق کے مابین کیا معاملہ ہے؟، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول معاملہ تو ایسے ایسے تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا، پھر انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں بھی ان کو وہی بات کہ دوں تاکہ لے پلے ہو جائے۔

حدیث نمبر: 3239
- ([يا أيُّها الناسُ!] إنَّ الله بَعثني إليكم، فقلتُم: كذبتَ، وقال أبو بكر: صَدَقَ، وواساني بنفسهِ ومالهِ، فهلْ أنتُم تاركو لي صاحبي؟ (مرَّتين) فَمَا أُوذِيَ بعدَها).
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اچانک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، انہوں نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا ہوا تھا، حتیٰ کہ اسے اپنے گھٹنے سے ہٹا دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھی نے خود کو مصائب و مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے سلام کہا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری ابن خطاب سے کچھ گڑبڑ ہو گئی، میں نے جلدی میں کچھ کہہ دیا، پھر مجھے ندامت ہوئی، سو میں نے ان سے کہا کہ وہ مجھے معاف کر دیں، لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے اب میں آپ کی طرف آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ابوبکر! اللہ تجھے معاف کرے۔ ا‏‏‏‏دھر بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ندامت ہوئی، وہ سیدنا ابوبکر کے گھر گئے اور پوچھا: کیا ابوبکر ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدلتا گیا، حتیٰ کے ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈرنے لگ گئے وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہا: اے الله کے رسول! اللہ کی قسم! میں زیادہ ظلم کرنے والا تھا۔ (‏‏‏‏ دو دفعہ کہا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیشک اللہ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا، لیکن تم نے مجھے (‏‏‏‏جھٹلاتے ہوئے) کہا: آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ سچے ہیں۔ ابوبکر نے اپنے جان و مال کو میری حمایت میں کھپا دیا، کیا تم میرے دوست کو میرے لیے چھوڑ دو گے؟ (‏‏‏‏دو دفعہ فرمایا) اس کے بعد انہیں تکلیف نہیں پہنچائی گئی۔
1    2    3    4    5    Next