نوٹ: یہ صفحہ خاص طور ان احباب کے لیے بنایا گیا ہے جو اس حدیث کو فور کلر میں ورڈ فائل میں save کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسٹ کو copy کیجئے اور ورڈ فائل میں pasteکر دیں۔
سلسله احاديث صحيحه
المرض والجنائز والقبور
بیماری، نماز جنازہ، قبرستان

1173. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میت پر رونا

حدیث نمبر: 1745
-" إنما أنا بشر، تدمع العين ويخشع القلب ولا نقول ما يسخط الرب، والله يا إبراهيم إنا بك لمحزونون".
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم فوت ہوئے اس دن سورج کو گرہن لگ گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! رسول اللہ ہونے کے باوجود آپ بھی رو رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو بشر ہی ہوں، آنکھوں سے آنسوں جاری ہیں، دل عاجزی و انکساری کے عالم میں ہے، لیکن ہم کوئی ایسی بات نہیں کریں گے جو رب کو ناراض کر دے۔ اے ابراہیم! بخدا! ہم تیرے (بچھڑنے کی) وجہ سے غم زدہ ہیں۔

حدیث نمبر: 1746
-" إن المؤمن بكل خير، على كل حال، إن نفسه تخرج من بين جنبيه وهو يحمد الله عز وجل".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی، جو عالم نزع میں مبتلا تھی، کو اٹھایا۔ اسے گود میں لیا اور پھر اپنے سینے سے لگا لیا، اتنے میں وہ فوت ہو گئی۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا چیخ و پکار کرنے لگی۔ اسے کہا گیا کہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں روتی ہے؟ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو روتا ہوا نہیں دیکھ رہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: میں رو تو نہیں رہا، یہ تو محض رحمت (کی علامت) ہے، مومن ہر حال میں خیر پر ہوتا ہے، اس کا سانس اس کے پہلوؤں سے نکل رہا ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہوتا ہے۔